Post Reply 
 
Thread Rating:
  • 0 Vote(s) - 0 Average
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
لندن سے بڑھکیں ۔۔۔؟
05-01-2010, 10:58 AM
Post: #1
لندن سے بڑھکیں ۔۔۔؟
وہ جنہیں لوگ الطاف بھائی کہتے ہیں اور وہ جو خان اور نیازی کہلاتے ہیں ۔۔۔ دونوں ایک جیسی باتیں کہتے ہیں۔ بھائی صاحب وڈیروں‘ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا راج ختم کرنے کی بات کرتے ہیں اور عمران خان بھی یہی بات کرتے ہیں۔ بھائی صاحب نئے لوگوں کو آگے لانے کی بات کرتے ہیں اور عمران بھائی بھی یہی کہتے ہیں۔ بھائی صاحب سیاستدانوں کو لُوٹی ہوئی دولت واپس لانے کو کہتے ہیں اور عمران خان بھی یہی کہتے ہیں۔ بھائی صاحب موروثی سیاست کے خلاف ہیں اور عمران خان بھی خلاف ہیں۔ بھائی صاحب کے کارکنوں نے کام کئے ہیں اورعمران خان نے خود کام کئے ہیں۔ بھائی صاحب غریب کی بات کرتے ہیں اور خان صاحب غریبوں کے لئے شوکت خانم ہسپتال کھول دیتے ہیں۔ بھائی صاحب کی پارٹی میں مڈل کلاس طبقہ ہے اور خان صاحب کے ساتھ سرمایہ داروں کا شدید مخالف غریب اور نوجوان طبقہ ہے۔ بھائی صاحب شاید تعلیم کی بات زیادہ نہیں کرتے جبکہ خان صاحب نمل یونیورسٹی بھی بنا چکے ہیں۔ خان صاحب پاکستان میں بیٹھ کر وہ سب کام کرتے ہیں جو بھائی صاحب لندن میں بیٹھ کر بھی نہیں کر سکتے۔ یوں لگتا ہے جیسے بھائی صاحب ریڈیو ہیں اور خان صاحب ٹیلی ویژن۔ بھائی صاحب اور خان صاحب باتوں‘ وعدوں اور دعووں میں کچھ کچھ ملتے ہیں مگر خان صاحب اپنے لوگوں میں موجود ہیں اور بھائی صاحب غائب؟ خان صاحب ڈیوٹی پر حاضر ہےں اور بھائی صاحب غیر حاضر؟ عمران خان کو لوگ جلسوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور بھائی صاحب کو صرف ”سنتے“ ہیں۔ بھائی صاحب لندن سے آنے کا نام نہیں لیتے اور خان صاحب لندن منتقل ہونے کا نام نہیں لیتے حتیٰ کہ اپنی بیوی گنوا بیٹھے ہیں۔ عمران خان سیاستدان نہیں تو بھائی صاحب بھی حادثاتی سیاستدان ہیں۔ بھائی صاحب طالب علم رہنما تھے اور عمران خان کھلاڑی۔ بھائی صاحب کو مہاجروں کے غم نے سیاسی اکھاڑے میں اتارا اور عمران خان کو مساوی، جلد اور سستے انصاف نے سیاسی میدان میںپہنچا دیا۔ بھائی صاحب کی پارٹی پنجاب آئی تو اسے”جی آیاں نوں“ کہا گیا اور خان صاحب کراچی گئے تو ان پر دروازے بند کر دئیے گئے؟ عمران خان آرام و آسائش چھوڑ کر نگری نگری گھومتا ہے اور بھائی صاحب لندن کے سہانے موسموں‘ مہنگی رہائش اور پُرآسائش طرزِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں؟ ”لندن سے گونجنے والی بڑھکوں پر قہقہے لگانے والے چودھری‘ وڈیرے‘ جاگیردار اور سرمایہ دار شاید جانتے نہیں کہ ”شیر آیا شیر آیا ۔۔۔ اور ایک روز شیر سچی مچی آ سکتا ہے۔ محترمہ موت ہتھیلی پر رکھ کر وطن لوٹی تھیں۔بھٹو موت کے پھندے پر جھول گئے تھے اور بھائی صاحب زندہ باد ۔۔۔! پاک سرزمین شاد باد پر ایک بار قدم رنجہ فرما کر دیکھیں، یہ سارے وڈیرے اور لٹیرے اور چودھری اپنی” پگ“ ان کے پیروں میں رکھ دیں گے۔ کشمیری جائے پناہ ڈھونڈتے پھریں گے۔ خان اور نیازی پناہ مانگیں گے۔ بھائی صاحب کی ایک گرج دھرتی ہلا دیتی ہے تو ان کی آمد سے زلزلہ آ سکتا ہے۔ مشرف کے جلسے میں بھی ہجوم تھا مگر وہاں موجود لوگ بتاتے تھے کہ اکثریت تماشبینوں کی تھی اور لاتعداد افراد ٹرکوں میں بھر کر لائے گئے تھے۔ یہ وہی جلسہ تھا جس میں مشرف نے ہَوا میں مکا لہرا کر دھمکی دی تھی۔ مشرف تو چلا گیا البتہ اسکی باقیات موجود ہے۔ پنجاب میں بھی دوستوں کی کمی نہیں ہے۔ سلمان تاثیر بھی سیاہ چشمے کے پیچھے سے ”بلائیں“ لے رہے ہیں۔ سارا زور عام بندے کو آگے لانے کے لئے نہیں نواز شریف اور عمران خان کو پیچھے ہٹانے کے لئے لگایا جا رہا ہے۔ پنجاب بھی بڑا دلچسپ ہے۔ بندر کا تماشہ ہو یا کبڈی کا کھیل ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔ آپ گھر تو آئیں پنجاب کیا پورا پاکستان آپ کے پیچھے ہو گا۔ میڈیا پہلے ہی آپ کے آگے پیچھے رہتا ہے ۔ شریف اور خان بھی پھولوں کی پتیاں اٹھائے ہَوائی اڈے پر موجود ہونگے۔ عمران خان کو بڑھک لگانا نہیں آتی لیکن لاہوری آپ کا مکھڑا دیکھتے ہی ”او ساڈا شیر آیا“ کے فلک شگاف نعرے لگانے شروع کر دیں گے۔ عمران جس انقلاب کی بات کرتے ہیں وہ آپ کی وطن واپسی ہے۔ پیارا پاکستان‘ سوہنا پاکستان ہوائی اڈوں پر نظریں جمائے‘ ”کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں‘ مینوں دس دیو ہویا کی قصور میرے کولوں“ ۔۔۔ گاتا رہتا ہے۔آصف زرداری فر فر پنجابی بولتے ہیں۔ فیصل آباد میںبلھے شاہ کا شعر سنا کر بلھے کو تکلیف پہنچائی اور آپ نے بلھے شاہ کا شعر سنا کر ان کی روح کو ”تسکین“ پہنچائی۔ اب تو پنجاب میں بھی ٹیلیفونک جلسہ ”دیکھا“ جا سکے گا۔ ایک صحافی کہتا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو میں فرق ہوتا ہے ۔۔۔ باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ الا ماشاءاللہ صحافیوں کو فون پر کالم لکھوائے جاتے ہیں۔ ٹاک شوز کروائے جاتے ہیں۔ یہ مہارت بھی عام نہیں ہے۔ جلاوطنی خواہ جبری ہو یا مرضی کی پاکستان اولاد کی جدائی میں غمگین ہے۔ بھائی صاحب مشرف ہیں نہ شوکت عزیز اور نہ ہی ملک کا پیسہ لُوٹا ہے پھر باہر کیوں ہیں؟ بھائی صاحب جس غریب کی بات کرتے ہیں اس کے پاس تو لاہور سے کامونکے جانے کا کرایہ نہیں وہ اپنے لیڈر کی زیارت کے لئے لندن کیسے جا سکتا ہے ۔۔۔؟ لیڈر عوام میں موجود ہوتا ہے اس کے ساتھ جیتا اور مرتا ہے لیکن پاکستان کا المیہ ہے کہ اس کی دولت اور اولادیں ہی نہیں اسکے لیڈر بھی باہر ہیں۔ پاکستان بھائی صاحب کی صورت دیکھنے کے لئے ترس گیا ہے اور ”آجا تینوں اکھیاں اڈیکدیاں‘ دل واجاں ماردا‘ آجا پردیسیا واسطہ ای پنجاب دا۔“ گنگناتا رہتا ہے اور ریاض الرحمان ساغر بھی بے حد اداس ہیں ....
الطاف بھائی سے ہو ملاقات روبرو
کھل کر ہماری ان سے کبھی ہو جو گفتگو
سینے پہ ہاتھ رکھ کے فقط سچ بتائیے
یہ ملک آپ کا ہے تو اب لوٹ آئیے
لوگوں سے ٹیلی فون پر کب تک یہ رابطے
سب کو گلے لگاﺅ بنیں
Visit this user's website Find all posts by this user
Quote this message in a reply
Post Reply 


Forum Jump:


User(s) browsing this thread: 1 Guest(s)