NATO supply should be taxed - Printable Version +- Pakistan Real Estate Times - Pakistan Property News (https://www.pakrealestatetimes.com) +-- Forum: Pakistan Real Estate / Property News (/forumdisplay.php?fid=1) +--- Forum: Latest Pakistan Property & Economic News (/forumdisplay.php?fid=4) +--- Thread: NATO supply should be taxed (/showthread.php?tid=11010) |
NATO supply should be taxed - LRE - 06-30-2010 11:56 PM نیٹو سپلائی پر ٹیکس کی تجویز سینٹ کی قائمہ کمٹی نےحکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ افغانستان میں موجود اتحادی افواج کے لیے سازو سامان لے کر جانے والی گاڑیوں پر ٹیکس عائد کریں۔ قائمہ کمیٹی کی دلیل ہے کہ نیٹو افواج کےلیےسازو سامان لے جانے والی گاڑیوں کی وجہ سے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی سڑکیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ کراچی میں سینٹ کی قائمہ کمٹی برائے ترقیاتی منصوبہ جات کے ایک اجلاس میں یہ تجویز پیش کی گئی۔ اس کمیٹی کے چیئرمین حاجی عدیل ہیں جبکہ عبدالمالک بلوچ اور عبدالرزاق تھیم اس کے رکن ہیں۔ حاجی عدیل نے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں ایساف اور نیٹو کے لیے جو ٹرک، ٹینکر اور ٹرالر سامان لیکر جاتے ہیں وہ ملکی سڑکوں پر بہت زیادہ لوڈ ڈال رہے ہیں۔ جس وقت امریکہ اور اتحادیوں نے عراق پر حملہ کیا تھا تو انہوں نے ترکی کی سڑکیں استعمال کیں تھیں اس سلسلے میں وہ چار سو ڈالر فی ٹرک ٹیکس ادا کرتے تھے مگر پاکستان میں ایسا کوئی ٹیکس نہیں۔ حاجی عدیل کے مطابق انہوں نے امریکہ کے دورے کے موقعے پر اس معاملے پر بات کی تھی مگر امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، ان کا کنٹریکٹر سے معاہدہ ہے پاکستان حکومت ان سے ٹیکس لے سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اندرون ملک جو ٹرک چلتے ہیں ان کے لیے الگ ٹیکس ہے مگر جو ملک سے باہر جاتے ہیں وہ یہاں کی سڑکیں استعمال کرتے ہیں ٹول پلازہ پر ان سے زیادہ چارج کیا جائے کیونکہ موٹر وے خسارہ میں جا رہے ہیں اور آمدنی کم ہے۔ دوسری جانب پاکستان آئل ٹینکرز ایسو سی ایشن کے صدر یوسف شاہوانی کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر وہ بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر غیر قانونی وصولی بہت زیادہ ہے۔ ان کے مطابق کراچی سے لیکر طورخم تک وہ فی ٹرک دو ہزار رپے ٹول ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں یہ وہ اپنی جیب سے دیتے ہیں ٹھیکیدار انہیں نہیں دیتا۔ واضح رہے کہ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت پاکستان حکومت نے کچھ ہوائی اڈوں کے ساتھ اتحادی فوجی کو سامان کی ترسیل کے لیے کراچی کی بندرگاہوں کے استعمال کی بھی اجازت دی تھی۔ ٹرانسپورٹوں کے مطابق روزانہ دو سو سے ڈھائی سو ٹینکر اور ٹرالر عسکری ساز و سامان کے علاوہ تیل اور دیگر اشیائے ضرورت کی دیگر چیزیں لیکر چمن اور طورخم پاس سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔ دو ہزار سات سے اب تک ان ٹینکروں اور ٹرالروں پر کراچی، اسلام آباد، پشاور اور جعفرآباد میں حملے بھی ہوچکے ہیں۔ http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/06/100630_nato_supply_tax.shtml |