بھارت کی ” خوشبو“ ۔۔۔!
|
04-30-2010, 11:37 PM
Post: #1
|
|||
|
|||
بھارت کی ” خوشبو“ ۔۔۔!
بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ دونوں ممالک دوستی کی خوشبو سے معطر ہیں۔ امن کی آشا بھی خوشبو سے مہک رہی ہے لیکن ”دو قومی نظریہ“ کی فلاسفی سے خوشبو مرجھا جاتی ہے ۔۔۔ میں جس خوشبو کی بات کرنا چاہتی ہوں یہ بھارت کی وہ خوشبو ہے جس نے ایک ”بدبودار“ مقدمہ جیت لیا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے تامل اور ہندی فلموں کی اداکارہ خوشبو کے متنازعہ بیان ”شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا“ کو جائز قرار دےدیا ہے۔ شرمناک اپیل کو قانونی تحفظ دے دیا ہے ۔۔۔ اداکارہ خوشبو نے 2005ءمیں ایک بھارتی ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ خواتین کے شادی سے پہلے ناجائز تعلقات میں کوئی خرابی نہیں ہے‘ فطری تقاضوں کا گلا گھونٹنا زیادتی ہے۔ اس مطالبہ کو قانونی تحفظ دیا جائے تاکہ مرد ”پاکیزہ“ بیوی کی فلاسفی سے باز آئیں اور خواتین اپنی مرضی سے زندگی گذار سکیں۔ فلمسٹارخوشبو کی آواز پر بھارت ”جاگ“ اٹھا اور ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔ ہندووں کا ”تنگ نظر“ طبقہ خوشبو کے خلاف ہو گیا مگر خوشبو کی ”بدبو“ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک پہنچ گئی۔ بھارت کی ”آزاد“ سپریم کورٹ نے خوشبو کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکم جاری کر دیا کہ آج کے بعد بغیر شادی کے جوڑے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ خوشبو نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھارت کے عوام کی خواہش کو قانونی تحفظ دے کر آزادی اور انصاف کی مثال قائم کی ہے‘ میں اس مقدمہ کی کامیابی کے بعد خود کو پُرسکون محسوس کر رہی ہوں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اداکارہ خوشبو کے خلاف فوجداری کے بائیس کیس تھے جو کہ اس کے متنازعہ بیان پر دائر کئے گئے تھے مگر بھارت کی سپریم کورٹ نے نہ صرف خوشبو کے واہیات مقدمہ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے بلکہ اسے تمام معاملات سے بری قرار دے دیا ہے۔ بھارت کی خوشبو ساڑھے چار سال عدالت کے چکر کاٹنے کے بعد اپنا ”حق“ لینے میں کامیاب ہو گئی ہے ۔۔۔ خوشبو خان ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نے ہندو فلم ڈائریکٹر سندھار کے ساتھ شادی کے بعد ہندو مذہب اختیار کر لیا تھا۔ وہ کہتی ہے کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میری اپنی کوئی شناخت نہیں ہے‘ ہندو کے ساتھ شادی اور ہندو مذہب تبدیل کرنا میرا ذاتی فیصلہ ہے۔ اچھا ہوا خوشبو نے شرمناک قانون منظور کرانے سے پہلے اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا۔ اسلام کو بدنامی سے بچانے کے لئے اللہ نے اسے پہلے ہی خارج از اسلام کر دیا تھا۔ ایک ہندو خوشبو نے غیر اخلاقی اقدام سے ہندو ازم کو بدنام کیا ہے۔ اس کی دونوں بیٹیاں بھی ماں کے قانونی تحفظ سے استفادہ کر سکیں گی اور خوشبو کو فخر ہو گا کہ اس کی بیٹیوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کیا ہے۔ بھارتی میڈیا خوشبو کے کارنامے کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے جبکہ ”تنگ نظر“ طبقہ تنقید کر رہا ہے۔ بھارت کا لبرل طبقہ نے ہندو خاتون کے جراتمندانہ اقدام کو سراہاہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ کے شرمناک فیصلے سے بھارت کے ”لبرل“ ماحول کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ فعل جس کی حمایت کوئی مہذب معاشرہ نہیں کر سکتا اسے بھارت قانونی تحفظ دے رہا ہے ۔۔۔؟ دنیا کے تمام مذاہب نے اس غیر اخلاقی فعل کو ناجائز قرار دیا ہے مگر بھارت نے اسے جائز قرار دے دیا ہے ۔۔۔؟ یہ ہے بھارت کی خوشبو اس کی عدالت اور ایک مہذب معاشرے کا تمدن ۔۔۔؟ بھارت کی خوشبو اور مغرب کی ”بدبو“ قانونی بہنیں بن گئی ہیں۔ بھارت کی عدالت میں خوشبو قومِ لوط کے فعل کی حمایت میں بھی ایک مقدمہ دائر کرے گی اور اس کی سپریم کورٹ اسے بھی قانونی تحفظ دے دے گی ۔۔۔ ”دقیانوس“ پاکستان ”ہکا بکا“ کھڑا کبھی خود کو اور کبھی ”امن کی آشا“ کا منہ تک رہا ہے جو سرحدوں میں حائل مذہبی و ثقافتی دیوار کو گرا دینا چاہتی ہے۔ اقدار کی چلمن کو ہٹا دینا چاہتی ہے۔ شرم و حیا کو خوشبو بنا دینا چاہتی ہے۔ پڑوسیوں کی ”خوشبو“ سرحد پار سے آ رہی ہے ۔ پاکستان اپنی ان خوشبووں سے پریشان ہے جو بھارت جانے کو بے چین ہیں‘ سرحدیں ختم کرنے کی سازش میں گرفتار ہیں۔ پاکستان کو تشویش لاحق ہے کہ اسے دقیانوسی قرار دینے والی خوشبوئیں کہیں اس کی ”حیا“ کو تار تار نہ کر دیں مگر اس کے عوام اس کے خدشات کو غلط ثابت کر دیں گے۔ اس کے عوام اسے کبھی شرمسار نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستانیوں کی آنکھ میں ابھی شرم باقی ہے اور اس کی بیٹیاں باحیا ہیں۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی مذہب اور اقدار کا احترام کرتی ہے۔ پاکستان کی ایک نامور فلم اداکارہ نے ایک بار بتایا تھا کہ اس کی بڑی خواہش تھی کہ خدا اسے بیٹی کی نعمت سے نوازے اور وہ اس کی پرورش نیک ماحول میں کرے۔ یہ آرزو لے کر وہ عمرہ کے لئے گئی۔ مدینہ منورہ جانے کی سعادت نصیب ہوئی تو اس نے بارگاہ نبوی ﷺ میں گڑگڑا کر بیٹی کی خواہش کا اظہار کیا اور عرض کی کہ وہ اپنی بیٹی کانام فاطمہ رکھے گی۔ اللہ نے اسے بیٹی سے نوازا۔ اس نے اس کا نام فاطمہ رکھا۔ اس کی فاطمہ جوان ہو چکی ہے اور ایک سلجھی اور نیک لڑکی ہے۔ ماں باپ نے اسے گناہ کی زندگی سے دور رکھا تھا۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں بھی حیا اور غیرت موجود ہے۔ اچھے بُرے کی تمیز ہے۔ کوئی اپنی بیٹی کو ”خوشبو بنتے نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی گناہ کو قانونی تحفظ دینے کا سوچ سکتا ہے۔ پاکستان اپنی فضاوں کو سرحد پار کی ”خوشبو“ سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کا مذہب‘ اقدار‘ ثقافت اور ماحول پڑوس کی ”خوشبو“ سے مختلف ہے امن اور دوستی کی آڑ میں پاکستان کی پاکیزہ خوشبو کو بدبودار کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ گناہ پر احساس ندامت زندہ انسان کی علامت ہے مگر گناہ کوجائز قرار دےنا کفر کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ اللہ پوشیدہ گناہ معاف کر سکتا ہے مگر گناہ پر ڈھٹائی کی پکڑ سخت ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ”خدا سے ڈرو کہ خدا کی قسم اس نے گناہوں کو یہاں تک چھپایا کہ گویا بخش دیا“ ۔۔۔ امریکہ میں ہندو کمیونٹی امریکیوں کے ماحول میں رچ بس چکی ہے جبکہ پاکستانی اپنی ”تنگ نظری“ کی وجہ سے امریکیوں میں گھل مل سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی اولادوں کو ”خوشبو“ بننے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ بھارت کی خوشبو نے مقدمہ جیتا یا ہارا ۔۔۔ اس کا فیصلہ پاکستان بھارت کا باشعور اور باضمیر طبقہ کر سکتا ہے البتہ امن کی آشا اس خوشبو کو بھی ”آزادی اظہار“ کا نام دِلا دے گی http://www.pkcolumns.com/ |
|||
« Next Oldest | Next Newest »
|
User(s) browsing this thread: 1 Guest(s)