پھر قیامت آہی جانی چاہئے
|
04-22-2010, 11:47 AM
Post: #1
|
|||
|
|||
پھر قیامت آہی جانی چاہئے
جس طرح بھرم اور عمارت کی تعمیر میں محنت شاقہ اور جانفشانی کا عمل دخل ہوتا ہے اسی طرح بھرم اور عمارت کے ٹوٹنے کیلئے بس ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے۔ جب کوئی ثابت قدمی کا دعوے دار انسان لغزش کھاتا ہے تو پھر لڑھکتا ہی چلا جاتا ہے۔ پھر کہیں جم نہیں پاتا اور اپنے ہی ہاتھوں ضائع کی گئی اپنی ساکھ کی خاک تو اڑا سکتا ہے، اسے واپس نہیں لاسکتا۔ پی این اے کی تحریک کے عروج میں اس کے سیکرٹری جنرل رفیق باجوہ کا طوطی بولتا تھا، وہ گفتار کیلئے کھڑے ہوتے تو ان کیلئے ہمہ تن گوش لوگوں کا اجتماع پہاڑ بن جاتا۔ ایک شبھ گھڑی نے انہیں گمنامیوں سے نکال کر ہیرو بنایا اور پھر ان کی لغزش کے صرف ایک لمحے نے انہیں لڑھکا ہوئے پلک جھپکتے میں زیرو بنا دیا۔ لغزش کا وہ لمحہ ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی ملاقات کا تھا جس کے ساتھ ہی وہ عوامی نفرت کی زد میں آئے اور راندہ درگاہ ہوگئے اور بقول قابل اجمیری....
رہِ وفا میں قدم ڈگمگا ہی جاتے ہیں کسی مقام سے پہلے، کسی مقام کے بعد وفا استقامت کے ساتھ ہی مشروط ہے۔ بس پاﺅں لڑکھڑانے کی دیر ہے پھر کسی بت کے پاش پاش ہونے میں لمحہ بھی نہیں لگتا۔ ہمارے دانشور وکیل دوست چودھری اعتزاز احسن بھی اس وقت لڑکھڑانے کے اسی لمحے کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور پھسلے ایسے ہیں کہ قانون، آئین اور انصاف کی حکمرانی کیلئے ان کی ساری وفائیں اب ان کیلئے قہر و مذلت کا نشان بن کر ان کے گلے میں طوق کی طرح لٹک رہی ہیں۔ لوگ حیران ہو رہے ہیں، سوال اٹھا رہے ہیں، تجسس میں ڈوبے ہیں، انسانی عزیمت و ہزیمت کو ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوتے دیکھ کر مخمصے میں پڑے ہیں۔ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ عظمت کی انتہاءکیا ہے اور ذلت کی گہرائی کتنی ہے۔ اگر وفا کے امتحان میں ”یار“ کا دامن ہی جا تھامناتھا اور ”دھیدو رانجھا“ ہی کہلانا تھا تو پھر اسی مقام پر لڑھک جاتے جو بلند ترین حکومتی مناصب آپ کے قدموں میں ڈال رہا تھا۔ اس وقت تو آپ ثابت قدم بنے رہے،عدلیہ کی آزادی کے ہر اول دستے کے لیڈر بنے رہے، پارٹی ٹکٹ کو ٹھوکر مار کر دھتکار دیا، ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم سے گورنر ہاوس تک آپ کے نام کے ڈنکے بجنے لگے۔ آپ جس منصب پہ ہاتھ رکھتے، پلیٹ میں سجا کر آپ کی خدمت میں پیش کردیا جاتا مگر آپ عدلیہ کی آزادی کے نعرے لگاتے اور لگواتے رہے۔ آپ نے لانگ مارچ پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے لے جا کر اچانک ختم کردیا۔لوگوں کے ذہن گڑ بڑائے مگر آپ پر بے وفائی کا الزام لگانے سے گریز کیا کہ اپنے ہاتھوں سے تراشا گیا بت کہیں مٹی کاڈھیر نہ بن جائے۔ مگر آپ کے لڑھکتے پاﺅں کہیں رک ہی نہیں پائے اور آج آپ میں اور رفیق باجوہ میں، آپ میں اور سردار لطیف کھوسہ میں رتی بھر کا بھی فرق نظر نہیں آرہا۔ شائد یہ بھی تاریخ کا سبق ہے جس سے انسان کوئی سبق نہیں سیکھتا کہ جرنیلی آمریت کے قانونی اور آئینی محافظ عبدالحفیظ پیرزادہ اسی جرنیلی آمریت سے ڈسی جانے والی عدلیہ کی عظمت کا جھنڈا اٹھائے کھڑے ہیں اور پارلیمنٹ کی آئین سے سرکشی کو عدلیہ کے سامنے جوابدہ ٹھہرا رہے ہیں جبکہ اس عدلیہ کے کٹھن وقت میں اس کی عظمت کا جھنڈا تھامنے اور بلند کرنے والے چودھری اعتزاز احسن آج اسی عدلیہ کو ڈراتے، دھمکیاں دیتے نظر آرہے ہیں اور منحنی علی احمد کرد جنہیں وکلاءتحریک نے سر آنکھوں پر بٹھایا تھا اعتزاز احسن کی انگلی تھامے،”میں بھی ہوں“کا نحیف و کمزور نعرہ لگا کر حکمرانوں کو اپنی وفاداری کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 73ءکا جو آئین عبدالحفیظ پیرزادہ کے ہاتھوں تخلیق پایا اس میں رد و بدل کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں پر ختم ہوتی ہے، یہ بھی انہی کو بہتر معلوم ہے۔ اس لئے اگر آج وہ گواہی دے رہے ہیں کہ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کا اضافہ پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے تو ان کی اس بات پریقین کیوں نہ کیا جائے اور چودھری اعتزاز احسن کے اس دعوے پر کیوں یقین کیا جائے کہ عدلیہ نے اٹھارہویں ترمیم کی کسی شق کو کالعدم قرار دیا تو پارلیمنٹ او رعدلیہ میں خوفناک ٹکراﺅ ہوگا، جناب! اس ٹکراﺅ میں اگر ”سٹیٹس کو“ ٹوٹنے کی نوبت آتی ہے۔ قانون، آئین اور انصاف کی حکمرانی تسلیم ہوتی ہے اور گند کی صفائی کے جاری عمل کو تقویت پہنچتی ہے تو پھر انسانیت کی فلاح کیلئے اور اداروں کے استحکام کیلئے یہ ٹکراﺅ خیر و برکت کا باعث بنے گا۔ آپ اس کا ڈراوا دے کر اپنی عاقبت مزید خراب نہ کریں اور جب آئین میں پارلیمنٹ (مقننہ) کی ذمہ داری قانون و آئین کو وضع کرنے کی ہے اور عدلیہ کی ذمہ داری پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون و آئین کا جائزہ لے کر اس کی تشریح کرنے کی ہے کہ یہ انہی اختیارات کی حدود میں رہ کر وضع کیا گیا ہے اور آئین کی روح سے مطابقت بھی رکھتا ہے یا نہیں تو پھر آئین کی کس تشریح نے پارلیمنٹ کو عدلیہ پر بالادستی دلا دی ہے۔ کیا پہلے کبھی آئین و قانون کی کوئی شق عدلیہ میں چیلنج اور کالعدم نہیں ہوئی؟ اگراس وقت پہاڑ نہیں ٹوٹا اور قیامت نہیں آئی تو اب چودھری اعتزاز احسن کس پہاڑ کے ٹوٹنے کا ڈراوا دے رہے ہیں۔ ایک لومڑی شکاری کو ڈرائے جا رہی تھی کہ مجھے شکار کرو گے تو قیامت آ جائے گی۔ شکاری ایک لمحے کو تو لڑکھڑایا پھر اس نے یہ سوچ کر لومڑی پر تیر چلا دیا کہ بھلا دیکھیں تو سہی قیامت کیا ہوتی ہے اور کیسے آتی ہے۔ لومڑی کے تیر سے گھائل ہونے کے بعد جب زمین کے کسی ایک ذرے میں بھی لرزش پیدا نہ ہوئی اور درخت کے کسی ایک پتے کے ہلنے کی نوبت بھی نہ آئی تو شکاری نے گھائل لومڑی سے استفسار کیا، ”اب بتاﺅ، قیامت کہاں آئی ہے“ لومڑی نے اپنے زخموں کو سہلاتے ہوئے بے چارگی سے جواب دیا۔”تیرے لئے نہیں، مگر میرے لئے تو قیامت آگئی ہے۔“ پھر ٹکراﺅ کا ڈراوا دینے والے ہمارے ”چودھری صاحب“ کو بھی سوچ رکھنا چاہئے کہ اس کے نتیجے میں قیامت کس کیلئے آنی ہے اور جناب۔! جو پارلیمنٹ عوام کو بھوک دے کر اور اندھیرے میں ڈبو کر جمہوری آمریت کے راستے نکال رہی ہو، سلطان کو جمہور پر مسلط کرنے کی تدبیریں ڈھونڈ رہی ہو اور ”خالصہ راج“ کیلئے ایک دوسرے کی مخالفت کا منافقانہ ڈھونگ رچانے والے عوامی مقبولیت کے دعوے دار لیڈروں کی جپھیاں ڈلوا رہی ہو۔ اس پارلیمنٹ کیلئے قیامت آہی جانی چاہئے۔ بقول ماہر القادری.... قیامت بھیج دے کچھ روز پہلے اگر کٹتا نہیں وقتِ غلامی |
|||
« Next Oldest | Next Newest »
|
Messages In This Thread |
پھر قیامت آہی جانی چاہئے - Lahore_Real_Estate - 04-22-2010 11:47 AM
|
User(s) browsing this thread: